جامعہ اسلامیہ کی تاسیس

جامعہ اسلامیہ کی تاسیس

اس میں شک نہیں مدارس ہی وہ مقامات ہیں جہاں سے انسانیت کونبوت کافیضان عطاکیا جاتاہے۔ جہاںنبوت کے چشمہ صافی سے آب حیات لے کرانسانیت کے پیاسے سبزہ زاروں کو سیراب کیاجاتاہے۔اسی سلسلۃالذھب کی ایک کڑی جامعہ اسلامیہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔جس کی بنیاد محققِ اہلسنت مفسرقرآن حضرت علامہ مولانا مفتی محمدجلال الدین قادری دامت برکاتہم العالیہ نے 2006 کو ماہِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ساعتوں میں اپنے گھرمیں بے سروسامانی کے عالم میں رکھی ۔
ابتدائی حالات
جب جامعہ اسلامیہ کی تشکیل کا خیال دل میں پیدا ہواتو ہمیںاس راہ کے طویل ، کٹھن اور پیچ در پیچ ہونے کا پورا احساس تھا۔لیکن ہمیں یقین کامل تھا کہ راستہ اگرچہ دشوار اور پر خار ہے اور قدم قدم پر رکاوٹوں کے پہاڑ سینہ تانے کھڑے ہیں مگر یہ راستہ جس منزل کا ہے وہ اپنی افادیت اور عظمت کے باعث اس قابل ہے کہ اس تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مشکلات کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے قدم آگے بڑھایا جائے ، یہی کمالِ سعادت بھی ہے اور یہی عینِ منفعت بھی۔
اس کے لئے وسائل بھی درکار تھے اور ہمت و حوصلہ بھی۔ اس کے لئے صبر و استقامت کی بھی ضرورت تھی اور صلاحیت و قابلیت کی بھی اور ہمارے پاس صرف شوق فراواں کی ایک چنگاری تھی جو ہر لحظہ سُلگ کر بے قرار بنا رہی تھی، اس کے علاوہ کچھ بھی تو نہ تھا۔ نہ تو جامعہ کے لئے کوئی عمارت تھی اور نہ ہی کوئی قطعہ زمین جس پر کم از کم ایک مثالی ادارہ کا خواب ہی دیکھا جا سکتا۔ نہ ہی ظاہری وسائل تھے اور نہ ہی دل کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتا تھا۔ مگر ہمیں یقینِ واثق تھا کہ جس کریم و رحیم نے شوق فراواں کی دولت مرحمت فرمائی ہے وہ اس شوق کی بے تابیوں کی لاج ضرور رکھے گا۔وہ اپنے حبیب پاک کے صدقے چارہ سازی فرمائے گا اور ضرور فرمائے گا۔
چنانچہ اپریل 2006کو ماہِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی مقدس ساعتوں میں محض اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے ، اپنی بے بسی اور بے سروسامانی کی پرواہ کئے بغیر متوکلاً علی اﷲ اس کام کا آغاز کردیا۔اللہ تعالیٰ کے بے پناہ فضل واحسان اورحضورنبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے اس مختصربعرصہ میں جامعہ اسلامیہ نے پیچھے مڑکرنہ دیکھا،بلکہ آگے ہی بڑھتا گیا۔ جس کے نتیجہ میںآج یہ جامعہ علاقہ کے ممتازمدارس میں شمارہوتاہے۔

کارکردگی

بحمداللہ تعالیٰ اب اس جامعہ کو اپنی گوناں گوں خصوصیات اور بہترین کارکردگی کی بدولت ملک بھر میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ اس وقت یہ جامعہ علمی اُفق پر ماہتاب بن کر چمک رہا رہے اور اس کے ساتھ امتِ مسلمہ کی بڑی توقعات اور تمنائیں وابستہ ہیں ۔ اس لئے کہ اس کی بنیادتقدیس خداوندی اور محبتِ رسول پررکھی گئی ہے۔
جب جامعہ اسلامیہ کی تاسیس وتشکیل کاعزم ہواتواس وقت اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت پرمکمل بھروسہ،اپنے مقصدکی برتری اورافادیت پریقین کامل،اور اپنے شوق فراواں کی بے تابیوںکے سواکچھ بھی ہمارے پاس نہ تھا۔مگر آج تقریباًچار سال گزارنے کے بعدجب روزِ اول کی بے سروسامانیوں کا تصور آتا ہے اورپھررب کریم کی بے اندازنوازشات کے مناظرآنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں تو جبینِ نیاز اظہارِتشکرکے لئے بے ساختہ اس کے حضورجھک جاتی ہے۔
٭    جی ٹی روڈ پر تقریباً ساڑھے تین کنال قطعہ اراضی کی جی ٹی روڈموضع تھپلہ میں خریداری۔۔۔۔۔۔
٭     اس کے ساتھ ہی متصل دوکنال کاخوبصورت پلاٹ چوہدری غلام سرور صاحب اور ان کی فیملی کی طرف سے جامعہ کوہبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭    لاثانیہ ریسٹورنٹ کے عقب میں حاجی محمدصدیق صاحب کی طرف سے تقریباً ساڑھے چارکنال زمین جامعہ کے نام وقف ۔۔۔۔۔۔
٭    اور پھرسَوسے زائد شاہین صفت طلبہ کاجمگھٹا۔۔۔۔۔۔اسے اس کریم کااحسان نہ کہیںتو اور کیا کہیں؟۔۔۔۔۔۔
یہ سب اللہ تعالیٰ کااحسان اورمعاونین کے خلوص کامنہ بولتاثبوت ہے۔
جامعہ اسلامیہ کی اتنے مختصرسے وقت میںعلمی شہرت کے بغورجائزے سے واضح ہوتاہے کہ جب مقصد نیک،ارادہ صالحہ،نیت پرخلوص،جذبہ صادقہ، محنت شاقہ،لگن پرجنون ، دل درد سے معمور،دماغ منبع شعور اورکوشش بھرپور ہو تو رفعتوں تک رسائی ممکن ہی نہیںبلکہ سریع الوقوع بھی ہوجاتی ہے۔
آئندہ سطور میں آپ جامعہ میں مصروفِ عمل شعبہ جات کا جائزہ لیں گے اور بجا طور پر محسوس کریں گے کہ اتنے مختصروقت اوربے سروسامانی کے عالم میں متعددشعبہ جات کاپوری آب و تاب کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف عہدہ برآ ہونابلکہ دوسروں کے لئے بھی قابلِ تقلیدمثال بن جانے سے مترشح یہ ہوتاہے کہ جامعہ اسلامیہ صرف ایک ادارہ نہیں کئی اداروں کا مجموعہ ہے۔ہمہ جہت علمی،عملی اورفکری تحریک ہے۔تعلیم وتعلم کی تحریک،دینی وملی خدمات کی تحریک،دعوت وارشاد کی تحریک اورتصنیف وتالیف کی تحریک کادوسرانام جامعہ اسلامیہ ہے۔

شعبہ جات
اس وقت جامعہ اسلامیہ میں جو شعبہ جات مصروفِ عمل ہیں ان کا اجمالی خاکہ کچھ یوں ہے۔
شعبہ افتا
جامعہ کے سرپرست اعلیٰ نے عوام الناس کودرپیش فقہی مسائل کے حل کے لئے دارالافتاء قائم فرمایا۔جس میںقریب وبعیدسے مسائل کاحل طلب کرنے کے لئے خطوط کے علاوہ دستی استفتاء بھی آتے ہیں۔جن کافقہ اسلامی کے ماہرین کی مشاورت سے قرآن وسنت کی روشنی میںفوری اورمستند جواب دیاجاتا ہے اورکسی قسم کی لچک کے بغیراحقاق حق کافریضہ انجام دیاجاتاہے۔

شعبہ درس نظامی
جس طرح دریاکے لئے روانی اورسمندرکے لئے طغیانی ضروری ہے، عرش کے لئے بلندی اورفرش کے لئے پستی کافی ہے۔پہاڑ کے لئے چوٹی اور میدان کے لئے وسعت ناگزیرہے،اسی طرح پھل کے لئے لذت اورپھول کے لئے خوشبوجزوبدن ہے۔علم کے لئے عظمت اورجہالت کے لئے ذلت مسلم ہے۔ اسی طرح جامعہ اسلامیہ کے لئے مثالی تعلیم و تربیت اورحسن انتظام اور اہتمام بھی ناقابل تردیدہے۔
روزِ اول ہی سے جامعہ کی یہ پالیسی رہی ہے کہ قابل ، محنتی اور فرض شناس اساتذہ کو مسندِ تدریس تفویض کیا جائے جن کے دل میں احیائے علومِ اسلامیہ کی لگن ہو اور جو اپنے تلامذہ میں علوم و فنون منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صحیح جذبہ اسلامی سے بھی سرشار کر سکیں۔اساتذہ کی بے لوث خدمات، انتظامی عملہ کے جذبہئ محنت اور معاونین کے خلوص اور دین دوستی کے پیشِ نظر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بحمدہ تعالیٰ پاکستان کے عظیم جامعات میں جامعہ اسلامیہ ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔
جامعہ کے شعبہ درسِ نظامی میں تنظیم المدارس کے مطابق قابل اساتذہ علومِ اسلامیہ کی تدریس فرماتے ہیں۔ ہرطالبِ علم پر خصوصی توجہ دے کر اس کی صلاحیتوں کو نکھارا جاتا ہے ۔ یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے مروجہ نصاب تعلیم کو حکومتِ پاکستان نے ایم۔ اے (عربی) اور ایم ۔ اے (اسلامیات ) کے مساوی تسلیم کرلیا ہے۔
شعبہ علومِ عصریہ
علومِ اسلامیہ میں تبحر اور مہارت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس نہج پر طلباء کو تعلیم و تربیت دی جائے کہ وہ حالاتِ حاضرہ سے آشنا ہوں تاکہ وہ اپنے زمانے کے مزاج کو سمجھ سکیں اور ان مشکلات سے بھی آگاہ ہوں جن کو انہوں نے حل کرنا ہے۔
یقینا موجودہ دورکے تقاضوںاورعصرِحاضرکے مواقع تبلیغ کے پیشِ نظر علوم جدیدہ کی اہمیت سے انکارنہیںکیاجاسکتا۔اس لئے جامعہ نے تنظیم المدارس کے نصاب میںشامل ابتدائی عصری تعلیم کے علاوہ باقاعدہ سکول وکالج کانصاب پڑھانے کاخاطرخواہ انتظام کررکھاہے۔ جس کے تحت طلبہ حکومتی امتحانات میںحصہ لے کراپنی کامیابیوںکے نشان واضح کررہے ہیں۔علومِ عصریہ کو شاملِ نصاب کرنے سے ہمارا اولین مقصد یہ ہے کہ علمائے ربانیین کا ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو دینی اور عصری دونوں علوم سے بہرہ ور ہو، جس کی دونوں آنکھیں روشن ہوں اور جدید و قدیم دونوں طبقوں کی ضروریات سمجھ کر بہترین راہنمائی کرسکے۔
شعبہ تحفیظ القرآن
اس شعبہ میں تجویدو قرأت کے ضوابط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بچوں کو ناظرہ اور حفظِ قرآن مجید کرایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دین کی ابتدائی اور بنیادی تعلیم دی جاتی ہے نیز بچوں کی ذہنی استعداد کے پیشِ نظر مضبوط بنیادوں پر ان کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے۔
اسلامی تربیتی کورسز
جو شائقین علم اپنی مصروفیات کی وجہ سے جامعہ میں داخلہ لے کر باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ان کے لئے کھاریاں شہر اور گردو نواح میں وقتاً فوقتاً اسلامی تربیتی کورسز اور مجالس و محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں منتخب آیاتِ قرآنیہ ، احادیثِ نبویہ ، اسلامی عقائد اور مسائلِ فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔اسی سلسلے کی ایک حسین کڑی کھاریاں شہر میں ہونے والا ہفتہ وار درسِ قرآن مجیدبھی ہے۔جسے بانیِ جامعہ نے ١٩٩٣ میں حالات کی نزاکتوں کے پیشِ نظر اپنے احباب کی مشاورت سے شروع فرمایااور مدت العمر اس کی سرپرستی فرماتے رہے ۔بحمدہ تعالیٰ اب بھی مخلصینِ جامعہ کے زیرِ انتظام باقاعدہ تسلسل کے ساتھ شہر کے مختلف مقامات پر ہر پیر کو یہ روحانی اجتماع منعقد ہوتا ہے جس میں علمائے عظام بھرپور تیاری کے ساتھ اپنے موضوع پر گفتگو فرماتے ہیں۔نیز محفل کے اختتام پر سوال و جواب کی خصوصی نشست بھی ہوتی ہے۔ ہر عمر اور ہر طبقہزندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات بالعموم اور نوجوانانِ ملت بالخصوص دلچسپی کے ساتھ ان مجالس میں شریک ہوتے ہیں ۔یہ اصلاحی محافل بھی دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔
نشرواشاعت
ذرائع ابلاغ میںنشرواشاعت کی اہمیت سے ہرذی شعوربخوبی واقف ہے۔یہی وجہ ہے کہ جامعہ نے دیگرشعبہ جات کی طرح اسے بھی خصوصی توجہ دے رکھی ہے۔دنیائے اسلام میں اردومیں اپنی نوعیت کی منفردتفسیراحکام القرآن کی7جلدوںکی اشاعت۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔ امام اہل سنت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ کی معرکۃ الآراء تصنیف مطلع القمرین کی اولین اشاعت بھی اسی شعبہ کی مرہون منت ہے۔اصلاحی مجالس،دینی اجتماعات اوراصلاحی لٹریچرکے ذریعے مثالی کام ہورہاہے۔اسی سلسلہ میں جامعہ کاترجمان ماہنامہ احکام القرآن گذشتہ چار سال مسلسل شائع ہوتارہا،جوعلمی اصلاحی مضامین اورحالاتِ حاضرہ پرجانداراداریہ کے ذریعے قوم کی راہنمائی کافریضہ انجام دیتا رہاہے۔(فی الحال یہ مجلہ گذشتہ چند ماہ سے حالات کی کسمپرسی کے باعث تعطل کا شکار ہے۔کاش کہ اصحابِ خیر اس طرف توجہ فرمائیں ۔)
نوٹ          حضرت مفسرِقرآن کے مقالات کامجموعہ انشاء اللہ جلدمنظرِعام پرآرہاہے۔
تعلیم وتعلم کے علاوہ غیرنصابی تعمیری سرگرمیوں میںحصہ لیناایک طالب علم کے مستقبل کوروشن اورتابناک کردیتاہے۔طلبہ کومختلف میدانوں میںکام کرنے کے لئے تیار کرنا ہرتعلیمی ادارے کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اس مقصدکے لئے جامعہ نے طلبہ کی نمائندہ تنظیم بزمِ رضاکے نام سے قائم کی ہے۔جس کے شیڈول میںتقریر،نعت خوانی اورحسن قرأت کے ہفتہ وارپروگرام کے علاوہ سالانہ مسابقے بھی شامل ہیں۔علاوہ ازیںبین المدارس مقابلوں میںحصہ لینے کے لئے طلبہ کے تعین سے لے کرموادکی تیاری تک تمام امور بزمِ رضاہی انجام دیتی ہے۔
ہرسال مطالعاتی دورہ پر بھی طلباء کرام کو ملک کے مختلف اوراہم ترین علاقہ جات کی طرف روانہ کیا جاتا ہے جہاں اچھے اچھے تعلیمی اداروں کو دیکھنے کے علاوہ ، علماء و مشائخ کو ملنے اور مختلف علاقوں کو قریب سے دیکھنے کے مواقع میسر آتے ہیں ۔ اس طرح جہاں اپنے اندر موجود خامیوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو اپنانے کا موقعہ ملتا ہے وہیں طلبہ کو اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے اور آئندہ زندگی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
انتظامی شعبہ
درس وتدریس میںمصروف اساتذہ اورطلبہ کے لئے یکسوئی اورتعلیم وتعلم کی طرف کامل توجہ تدریسی عمل میںبنیادی حیثیت کی حامل ہے۔اوریہ اس وقت تک ممکن نہیںجب تک انہیںبنیادی ضروریات زندگی کی فکرسے بے نیازنہ کردیا جائے۔لہٰذاطلبہ کے قیام وطعام ، علاج معالجہ ،فراہمی کتب اوردیگر ضروریات کے لئے انتظامی شعبہ ہمہ تن مصروف ہے۔بیسیوں طلبہ کے لئے مناسب رہائش ،بہترین خوراک ،کتب کی فراہمی ،علاج معالجہ نیز اساتذہ کرام کے لئے مشاہروں کاانتظام یقیناایک مشکل مسئلہ ہے جسے یہ شعبہ اپنی شبانہ روز جدوجہد اور مقصدسے لگن کے تحت باحسن طریق پوراکررہاہے۔یہ بھی اللہ رب العزت کا خاص فضل و کرم ہے کہ شروع دن ہی سے ہمیں جانثار ، مخلص اور بے لوث کارکن میسر رہے جو پوری تندہی اور جانفشانی سے جامعہ کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔