تعارف بانی جامعہ اسلامیہ 

مفسرِ قرآن ، محققِ دوران ، فخر الاماثل ، عین الافاضل ، بدر العلماء مفتی محمد جلال الدین قادری قدس سرہ العزیز آسمان علم و حکمت کے درخشندہ آفتاب عالمتاب تھے ، جن کے اوصافِ حمیدہ اور کمالاتِ جلیلہ کو شمار کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ۔ تاہم آپ کے چیدہ چیدہ اوصاف نظر قارئین ہیں۔
آپ کی زندگی کا ہر پہلو ستاروں کوجلا بخشنے والا اور حیات کا ہر لمحہ راہ ِحق کے مسافروں کی راہنمائی کرنے والا ہے۔ آپ علم و فضل کے منبع اور تواضع وا نکساری کے مرقع تھے۔ علماء کی آنکھوں کا تارا اور فضلاء کا بہترین سہارا تھے۔ مدرسین کی محفل کا نور اور اساتذہ کے دلوں کا سرور تھے۔طالبانِ حق کے لیےہترین تربیت گاہ اور صوفیاء کے لئےنزل آگاہ تھے۔ عرفاء آپ کودیدہ ور اور صلحا و اتقیاء آپ کورونقِ محفل کہتے۔ طالبین کے لیے جان بزم اور سالکین کے لیے نشان عزم تھے۔سالکین کے لیے شیخِ طریقت اور کاملین کے لیے جامع شریعت تھے۔متعلقین کے لیےصاحبِ بصیرت اور متوسلین کے لیے رشدوہدایت تھے۔سامعین کے لیے خوش بیان اورمتردین کے لیے نمونہ ایقان تھے۔ ملت کے لیےمفکر و مدبر اور افرادِملت کے لیے بلند پایہ عالم دین اوربااعتماد مفتئ شرع متین تھے۔
ان صفات کی حامل یہ وہی شخصیت ہے جنہیں پہنچاننے کے لیے لوگ مؤرخِ ملت او رمفسرِ قرآن جیسے باوقار القاب سے یا د کرتے ہیں۔کھاریاں کی سر زمین کو بجا طور پر فخر ہے کہ علم و عرفان کے اس دانائے راز نے اسے شرفِ قدم بوسی عطا فرما کر علمی دنیا میں اس کی آبرو رکھ لی۔
آپ کی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے وہ وسیع بھی ہے اور عمیق بھی ۔ تاہم جستہ جستہ چند چیزیں ہدیہ قارئین ہیں۔
آپ کا قد مبارک درمیانہ ، سرخی مائل سفید چہرہ جس سے نورانی شعائیں پھوٹتیں،کشادہ اور تجلیاتِ حق سے منور پیشانی ، خندہ رخسار جن سے جلالت علمی عیاں رہتی،کھلا سینہ جو اسررورموز کا مخزن اور معارف و حقائق کا خزانہ تھا۔ پتلے لب جو بوقت تبسم پھولوں سے بھی خوش تر لگتے، گھنی اور خوبصورت داڑھی جو اتباع سنت کا نشان بنی رہتی، سر پر عموماً سفید دستار شریف جو وقار و عظمت کی مخبر ہوتی ،(کبھی کبھی کپڑے کی سفید ٹوپی اور سردیوں میں گرم ٹوپی استعمال فرماتے) درمیانی اور خوبصورت آنکھیں جن میں کتنے ہی جلوے پہناں ہوتے، گفتگو میں آہستگی ،ٹھہراؤ اور لازوال شیرینی ، خوش خلقی اور خوش مزاجی موسلا دھار بارش کی طرح فیض رساں رہتی،کثرت مطالعہ اورا وراد و ظائف کا اثرہمہ وقت رخ زیبا سے عیاں رہتا،ستھرا سفید لباس آپ کے تزکیہ نفس پر شاہد ہوتا، طبعیت انتہائی نفاست پسند اور سادہ غذااستعمال فرماتے۔
آپ نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ شرافت اور دینداری میں ضرب المثل تھا اور جن اساتذئہ کرام سے شرفِ تلمذ حاصل کیا وہ رشدو ہدایت کے روشن مینار اور علم و فضل میں اپنی مثال آپ تھے ۔آپ علومِ معقولات و منقولات کے جس بابرکت سلسلہ سے وابستہ تھے وہ ٢٤واسطوں سے سید الکونین حضور صلی اللہ وعلیہ وسلم کے دامن کرم سے وابستہ ہے۔ آپ کے اساتذہ وشیوخ نے آپ کو مختلف بابرکت اسناد سے نوازا، منجملہ ان اسناد میں سے ایک سند یہ ہے۔
١۔    مفسر قرآن علامہ محمد جلال الدین قادری
٢۔    محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد
٣۔    حجۃ الاسلام حامد رضا بریلوی ،مفتی اعظم مصطفی رضا بریلوی، صدر الشریعۃ امجد علی اعظمی
٤۔    امام احمد رضا قادری بریلوی
٥۔    سید شاہ ابو الحسن احمد النوری مارہروی
٦۔    شیخ مولانااحمد حسن الصوفی مراد آبادی
٧۔     شیخ احمد بن محمد الدمیاطی المعروف ابن عبدالغنی
٨۔    شیخ محمد بن عبدالعزیز
٩۔    شیخ ابو الخیر بن عموس الرشیدی
١٠۔    شیخ الاسلام اشرف زکریا بن محمدا لانصاری
١١۔    شیخ الشہاب ابو الفضل احمد بن علی العسقلانی(ابن حجر)
١٢۔    شیخ الفضل عبدالرحیم بن حسین العراقی
١٣۔    شیخ شمس الدین ابو عبدا للہ محمد بن احمد التدمیری
١٤۔    حضرت ابو الفتح محمد بن محمد بن ابراہیم الکبری المیدومی
١٥۔    حضرت ابو الفرج عبدالطیف بن عبدالمنعم الحرانی
١٦۔    حضرت حافظ ابو الفرج عبدالرحمٰن بن علی الجوزی
١٧۔    حضرت ابو سعید اسماعیل بن ابو صالح احمد بن عبدالمالک نیشاپوری
١٨۔    حضرت ابو صالح احمد بن عبدالملک الموذن

١٩۔    حضرت ابو طاہر محمد بن محمد بن محمش زیادی
٢٠۔    حضرت ابو حامد احمد بن محمدبن یحی بن بلال البزار
٢١۔    حضرت عبد الرحمن بن بشر بن الحکم
٢٢۔    حضرت سفیان بن عیینیہ
٢٣۔    حضرت سفیان بن عمرو بن دینار
٢٤۔    حضرت ابو قابوس مولی عبداللہ بن عمرو بن العاص
حضورنبی اکرم نور مجسم شفیع معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
علاوہ ازیں مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا بریلوی رحمۃاللہ علیہ نے بھی آپ کو تمام سلاسل کی سند عطا فرمائی۔ یو ں سلسلہ اسناد سے ایک واسطہ اور کم ہو جاتاہے۔
حضرت مفسرِ قرآن علیہ رحمۃ الرحمان کی ذاتِ گرامی میں یو ں تو حسن کی ہزار جلوہ سامانیاں موجودتھیں لیکن جو کشش وجازبیت اورسرمستی ورعنائی روحانی سلسلہ کے حوالہ سے تھی،اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ آپ نے ١٩٦٠ میں حضرت محدثِ اعظم پاکستان رحمۃاللہ علیہ سے دورئہ حدیث پڑھ کر علوم ظاہری کی تکمیل کی ۔ اس کے بعد شیخِ کامل کی تلاش و جستجو میں بکثر ت درود وشریف اور کتب اولیاء کا مطالعہ وظیفہ حیات رہا ،توفیقِ الٰہی سے جلد ہی مدعا پورا ہوا۔ حق تعالیٰ نے مدد فرمائی ،نبیئ رحمت کی توجہِ خاص نے دستگیری فرمائی اور قدوۃالسالکین حضرت محدثِ اعظم پاکستان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری کا اشارہ ہوا۔آپ ١٩٦١ء ؁میں خودسپردگی کے لیے حاضر ہو گئے۔ بوقتِ حاضری حالت یہ تھی کہ
سپردم بتو مایہ خویش را                                       تودانی حسابِ کم و بیش را
وہ لمحات بھی کتنے وجد آفریں ہوں گے اور وہ ساعتیں کتنی پر کیف ہوں گی جب یہ فردِ فرید اپنے استاذِ گرامی کی خدمت میں شرفِ بیعت حاصل کررہے تھے۔ وہی استاذِ محترم جن سے علمِ کتابی کی تکمیل کی اور اب انہی سے مدارج باطنیہ طے کر انے کی درخواست ہو رہی ہے۔ ادھر حضرت محدثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے دور ِطالب علمی سے واقف تھے۔ آپ کی سیرت وکردار سے آگاہ اور جوہرِباطنی سے آشنا تھے۔فوراً بیعت فرماکر حلقہ طریقت میں قبول فرمالیا۔
گویا آمد آں یارے کہ ما می خواستیم
مرشد ِکامل نے روحانیت کی کن رفعتوں پر پہنچایا، اس کا اندازہ تو کوئی صاحبِ حال ہی کرسکتا ہے البتہ ہماری ظاہر بیں نگاہوں نے آپ کو اپنے شیخِ گرامی کی حیاتِ عظیم کا عکسِ جمیل دیکھا اور ہمہ وقت سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ سلم کے سانچے میں ڈھلاہوا پایا۔ آپ خلوت و جلوت میں اتباعِ حبیب کا بے مثال نمونہ تھے۔
آپ کاظاہر و باطن یکساں تھا بلکہ ظاہر سے زیادہ باطنی تزکیہ کا اہتمام فرماتے۔آپ کا قول حکمِ شریعت کی تعبیر اور فعل عزیمت کی تفسیر ہوتا۔ بے خوف و بے نیاز تھے، حق گوئی و بے باکی تو انہیں ورثہ میں ملی تھی، تبلیغ دین کے معاملہ میں ہزار ہا مصیبتیں جھیلیں مگر اس مرد ِآہنی کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی جنبش پیدا نہ ہوئی ۔غیرتِ دینی اور شریعت پر استقامت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
آپ کی عادات و اطوار پر رحمت عالم کی اداؤں کا عکس ہر وقت دیکھا جا سکتا تھا۔ آپ کی زندگی کے بے شمار واقعات سے صلہ رحمی،بے کسوں کی امدادواعانت ، ناداروں کی دستگیری وحاجت روائی کی جھلک واضع طور پر نمایاں ہے۔جب بھی ہمسائیگان و خاندان میں خوشی یا غمی کا موقع آتا ، آپ مالی معاونت فرماتے اور تعلق داروں کو دی ہوئی یہ رقم بطور ِقرضہ نہ ہوتی بلکہ بطور ہدیہ ہوتی۔ امراء کی صحبت سے آ پ نے ہمیشہ اجتناب ہی فرمایا۔ بڑے بڑے اصحاب ِدولت آپ کے در سعادت پر حاضری کو باعث شرف سمجھتے مگر دنیا داروں کے دروازوں پر جانا اور افسرانِ اعلیٰ کے دفتروں کے چکر لگانا، ایسی روایات سے تو آپ آشنا ہی نہ تھے۔ البتہ تعلق داروں میں سے جو بیمار ہو تا ، اس کی عیادت کو خود تشریف لے جاتے اور اگر کوئی مریض اپنے علاج کے اخراجات کے لیے پریشان ہوتا ، تو اپنی جیب سے سارے مصارف ادا فرماتے، اس قسم کی متعد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
آپ کا وصال 2محرم الحرام 1429/بمطابق 12جنوری 2008 میں ہے۔

دنیائے اسلام کی یہ عظیم عبقری اورمحبوب شخصیت جامعہ اسلامیہ کھاریاں کے پہلو میں آرام فرماہے۔ آپ کا مزار پر انوار اپنی آب وتاب کے ساتھ آج بھی مرجع فلائق ہے۔